ڈگری برائے علم یا نوکری؟

Sher Afghan Ranjha currently studies at the Government College University Lahore and at the age of 18 has raised an important question on behalf of his peers. In this essay titled ‘Degree for knowledge or job?’, he attempts to unravel the missing link of Pakistan’s current education system i.e. focus on real, holistic learning. Sustainable Development Goal 4.4 aims to substantially increase the number of youth who have relevant technical and vocational skills for employment, decent jobs and entrepreneurship by the year 2030. But what about learning for the sake of knowledge? Do we need to have indicators for that too?

اکثر اوقات جب میں کتابیں کھول کر پڑھنے لگتا ہوں تو میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر میں کس لئے پڑھ رہا ہوں؟ بہت سے جواب بھی ساتھ ہی جنم لیتے ہیں جیسے

 قوم کی خدمت کے لئے

  والدین کی رضا کے لئے

 اپنے خواب پورے کرنے کے لئے

 اپنے آپ کو منوانے کے لئے

 دنیا کو دکھانے کے لئے

 کچھ نیا اور انوکھا کر دکھانے کے لئے

 جہاں ایسے بہت سے جواب دل بہلانے کے لئے موجود ہیں وہیں ایک حقیقت بھی سامنے آتی ہے جیسا کہ حقیقت ہمیشہ سے کڑوی رہی ہے تو روایات کے عین مطابق یہ حقیقت بھی تلخ ہے کہ

ہم پڑھتے تو ہیں مگر محض نوکری کے لئے علم کے لئے نہیں۔

ہم نے شروع دن سے یہ پڑھا ہے کہ علم ایک عبادت ہے۔  علم حاصل کرنا ہم پر ہم پر فرض ہے ۔ عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہوسکتے ۔ اور ایسے بہت سے اقوال ذریں مگر شاید ہم یہ پڑھنا بھول گئے کہ علم حاصل تو کرنا ہے لیکن کس کے لئے؟ کیوں؟ اور کونسا علم حاصل کرنا ہے؟ مگر شاید قدرت نے بھی جان بوجھ کر ہماری آزمائش کے لئے یہ پہیلیاں چھوڑ دی تھیں ۔  مگر بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ ہم یہ پہیلی نا سلجھا سکے کیونکہ ہم نے علم حاصل کرنا ہی چھوڑ دیا اور ہم کتابوں میں درج فارمولوں، اقوال ، تعریفوں اور قوانین کو رٹا لگانے کو علم حاصل کرنا سمجھنے  لگے ۔ اور پھر بڑے غور سے پرچے میں حرف بہ حرف اس خوف سے لکھ کر آتے ہیں کہ کہیں نمبر نا کٹ جائیں

ہم نکلے تو علم حاصل کرنے ہی تھے لیکن   ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ کب ہم راستہ بھٹک گئے اور ہم علم حاصل کرنے والے راستے کو چھوڑ کر نمبر اور جی پی اے حاصل کرنے والے راستے پر چلنے لگے۔ اور دیکھئے تو اہل ظرف اور دانشور ہمیں ابھی بھی طالب علم کہ کر اور  اندھیرے میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اور ہائے انکی کرم نوازیاں کہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ تم طالب علم نہیں طالب نمبر بن چکے ہو ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ نمبر اتنے ضروری کیوں ہیں؟  اور کچھ دوست یہ بھی کہیں گے کہ علم حاصل کیا تو نمبر آئے ناں تو میرا جواب یہ ہے کہ بھائی میں بھی آپ پریشان نا ہوں میں بھی آپ ہی کی طرح گدھا ہوں جو ہے تو طالب نمبر لیکن خود کو طبعلم سمجھتا ہے۔                                                                                                                                                                  اب یہ نمبر اتنے ضروری کیوں ہیں تو بات وہاں سے شروع یوتی ہے جب ایک بچہ واقعی بچہ ہوتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا، انجینیئر بنے گا، پائلٹ بنے گا، فوجی افسر بنے گا ، مینیجر بنے گا اور اسکے سوچنے سمجھنے کی جب تمام قووتیں مفلوج ہو کر رہ جاتی ہیں  اور وہ لوگوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے تو اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکی اس شعبے کے لئے قابلیت نہیں دیکھی جائے گی کچھ دیکھا جائے گا تو صرف نمبر۔ اور پھر گھوم پھر کر بات وہیں آ جاتی ہے کہ بچہ پڑھ لکھ کر اچھے نمبر لے کر کچھ بھی کر لے لیکن بس نوکری مل جائے تو ان سب میں علم کہاں ہے؟

 اور کہاں ہے قوم کے روشن مستقبل کا معمار ۔۔۔ طالب علم؟                            

یہاں تو میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی تک محض نمبر دیکھے جاتے ہیں ۔ اور ویسے بھی ڈگری نمبروں سے ملتی ہے ۔ علم کا کیا ہے ؟ یہاں علم ، ہنر اور قابلیت کے ہونے یا نا ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ ہمیں تو بالآخر چالیس پچاس ہزار کی باعزت نوکری چاہیے اس کے لئے ایک ڈگری کی ضرورت ہے اور ڈگری نمبروں سے ملتی ہے ۔ خیر اگر ہم دوبارہ اپنے موضوع کی طرف دیکھتے ہیں  تو جب میں یہی سوال خود سے کرتا ہوں کہ ہم ڈگری علم کے لئے حاصل کرتے ہیں یا نوکری کے لئے تو ایک سادہ سا جواب ملتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لئے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی اور نا ہی کوئی ڈگری علم ہونے کی دلیل ہے۔ اور ایک دوسرا جواب جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر تو ہم اپنی ذات کی تسکین کے لئے، اپنے ہنر کو تراشنے کے لئے یا اپنے شوق کے لئے کوئی ڈگری کر رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ اس میں کچھ علم حاصل ہو جائے ۔ مگر ہمارے معاشرے میں اب ایسے لوگ بہت کم ہوتے جا رہے ہیں جنہیں یہ سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتے ہیں اور انکا شوق کیا ہے ۔ اور جو سوچتے ہیں ان میں سے بہت کم اپنے شوق کے مطابق آگے بڑھ سکتے ہیں کیونکہ کوئی بھی ڈگری کرنے سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس میں آگے کام کے کیا مواقع ہیں اور کیا سہولیات میسر ہوں گی ۔ کیا اس میں عزت اور پیسہ دونوں میسر ہوں گے؟ کیا اس سے اتنے پیسے کمائے جا سکتے ہیں کہ آرام سے گزر بسر ہو سکے؟  اور جب طالب ڈگری یہ سوچتا ہے تو اس کے سامنے گنے چنے شعبے رہ جاتے ہیں ۔ اگر تو اس کے نمبر ذیادہ ہیں تو وہ ڈاکٹر یا انجینیئر بنے گا اگر اس سے کم ہیں تو وہ فوج ، وکالت اور بزنس اسٹڈیز میں چلا جائے گا ۔ اور اگر اس کے نمبر اس سے بھی کم ہیں اور وہ دنیا کی نظر میں نکما ہے تو پھر وہ سماجی ، ادبی و لسانی علوم میں آ جائے گا  تا کہ اسے بھی کوئی ڈگری مل جائے اور شاید پھر اسے بھی کوئی اچھی رقم والی نوکری مل ہی جائے ۔ جب ہمیں اسی سوچ کے  ساتھ آگے بڑھنا ہے کہ ہمیں پڑھ کر علم حاصل نہیں کرنا بلکہ نمبر حاصل کرنے ہیں اور ڈگری لے کر نوکری کرنی ہے تو ہمیں پھر خود کو طالب علم کی جگہ طالب ڈگری یا سیدھا ہی طالب نوکری کہنا چاہئے ۔

                             کسی مفکر نے کہا تھا کہ

“جس قوم میں تعلیم محض نوکری کے لئے حاصل کی جائے تو وہاں عالم اور لیڈر نہیں نوکر پیدا ہوتے ہیں ”

اب زرا نظر دوڑاتے ہیں ان طالب علموں کی طرف جو اپنی مرضی کے شعبے میں چلے جاتے ہیں اور حقیقی معنوں میں علم والی ڈگری لے کر جب عملی ذندگی میں آتے ہیں تو ان میں سے کچھ کا ساتھ تو قسمت دیتی ہے مگر کچھ کو اندھیرے اور مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ عبرت کا نشان بن جاتے ہیں کہ

“یہاں خواب دیکھنا منع ہے”

ایک اچھی رقم کی نوکری کے لئے بھی اچھی ڈگری چاہیے اور اچھی ڈگری کے لئے بھاری رقم ۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر آپکو اچھا کمانا ہے  اور منافع چاہیے  تو پہلے اچھی سرمایہ داری کرنی ہوگی ۔ دراصل تعلیمی ادارے اب علم کے گہوارے اور درسگاہیں کم اور کاروباری اڈے یا اسٹیٹ ایجنٹ کے دفاتر ذیادہ بن چکے ہیں ۔ جہاں آپکو آپکی جیب کے مطابق  بتایا جاتا ہے کہ آپ کے لئے کونسی کیٹیگری کا پلاٹ موجود ہے جس میں آپ کتنی سرمایہ داری کریں گے اور کتنا منافع ہوگا۔  جتنی اچھی رقم اتنی اچھی ڈگری اور اتنی ہی اچھی نوکری ۔

مسعود بٹ صاحب نے بالکل سچ کہا تھا کہ

“اب ڈگری محض تعلیمی اداروں کے اخراجات کی رسید بن کر رہ گئی ہے “

اب آپ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ایک ایسے معاشرے  میں رہ رہے ہیں جہاں سامراجی طاقتوں نے آپکو ایک گول چکر میں پھنسا دیا ہے جہاں روٹی کپڑا اور مکان کے لئے پیسہ چاہیے اور پیسہ کمانے کے لئے نوکری ضروری ہے اور نوکری ڈگری ہولڈر کو ملتی ہے اور اسکے لیے بھی پیسا ہونا ضروری ہے ۔

اب ایسے حالات میں کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اب کوئی علم کے لئے ڈگری حاصل کرے گا؟ اور کیسے اس قوم میں اب عالم و مفکر پیدا ہوں گے جب آپکی حکومت ایک شعبہ کی ابتدائی تنخواہ ایک لاکھ رکھیں گے اور دوسرے شعبے کی تیس ہزار؟

خود ہی سوچیں کہ لوگ کس طرف  بھاگیں گے؟  اور پھر اسکا انجام یہی ہوگا کہ ہر سال 63,000 سے 80,000 تک بچے اس ایک لاکھ والی نوکری کی طرف بھاگیں گے اور ان میں سے جب محض 3500 سے 4000 تک کو اس ڈگری میں داخلہ مل جائے گا لیکن باقی ٹوٹے خوابوں کے ساتھ پھر سے کسی ایسے شعبے میں جانے کے لئے ہاتھ پیر ماریں گے جس کی تنخواہ ذیادہ ہے ۔  اور اس طرح وہ اپنے اندر کے ہنر کو بن جانے دفن کر دیں گے۔ انہیں شاعر ، افسانہ نگار ، محقق ، مضمون نویس اور سائنسدان کی بجائے اگر ٹاپر، فیلیر، 1080 والا اور 950 والا کہ کر پکارا جائے گا تو  اس طرح عالم اور مفکر و محقق کم اور ذہنی غلام ذیادہ پیدا ہوں گے اور طالب علموں کی جگہ طالب نوکری جنم لیں گے جو کسی بھی قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جتنی بھی اقوام آج دنیا پر حکومت کررہی ہیں طالبعلموں کی وجہ سے۔ ہمارے ملک میں جانے کتنے  ہی ڈگری والے بھی بے روزگار ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کے ہنر کو شاید پہچان نا سکے اور اگر پہچان بھی لیا تو اسکی بے قدری دیکھ کر مایوس ہوگئے ۔ ہمیں اب ضرورت ہے کہ نمبروں کی بجائے ہنر اور قابلیت کی بنیاد پر نوکریاں دی جائیں ۔اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ تمام شعبوں اور مضامین کو برابر کا درجہ اور حقوق دئے جائیں تاکہ ننھے ذہنوں کو ذیادہ مواقع ملیں اور وہ اپنا ہنر تلاش کر کے اسے تراش سکیں اور ملک و قوم کی ترقی میں کرداد ادا کر سکیں۔

All views expressed in this work are that of the author. The Green Box takes no responsibility of the opinions expressed here. Author reserves the right to content published here.

 

Leave a comment